آج صورت حال بدل چکی ہے۔ انگلش کی ضرورت نہ صرف بیرون ملک تبلیغ دین کی نیت سے جانے والوں کو ہے بلکہ اندرون ملک بھی انگلش کے دو تین سو الفاظ جانے بغیر معاشرے میں رائج زبان صحیح طور پر سمجھنا مشکل ہو گیا ہے۔ علمائے کرام عوام کی انگلش زدہ گفتگو نہیں سمجھ سکتے تو اس سے خود بخود یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عوام بھی علمائے کرام کی وہ گفتگو سمجھنے کے قابل نہیں، جس میں عربی و فارسی کے الفاظ بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس لیے جامعہ میں انگریزی زبان کی تعلیم کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ جامعہ کا انگلش لینگویج کورس اسی سلسلے کا حصہ ہے۔ اس کورس کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک ہونے والے کورسز کے شرکاء میں سے اکثر مدارس میں انگریزی کی تدریس کر رہے ہیں یا اپنے طور سے لینگویج سینٹر قائم کر کے انگریزی سکھا رہے ہیں۔ ایک طالب علم رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، ایک جام شورو یونیورسٹی سندھ میں پڑھا رہا ہے اور چند شرکاء اسکولوں میں انگریزی تعلیم دے رہے ہیں۔
میں مو صو ف کو ذاتی طورپر جانتا ہوں ،میری معلومات کی حد تک یہ کسی بھی ایسی سر گرمیں ملو ث نہیں جوملکی ، قومی اور ملی مفا د کے خلاف ہو